Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر8

رات کو تقریباً 9 بجے کے قریب شاہ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور اسے روتا دیکھ ایک بار پھر سے بد مزہ ہوا........ 
اور غصے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس تک پہنچا اور جھٹکا دے کر اسے کھڑا کیا..
 اور غصے سے دھاڑتے ہوۓ بولا...
"کیا نحوستی پھیلا رہی ہو تم ہاں............پہلے میری زندگی میں آ کر پھیلائ نحوستی اب میرے گھر میں پھیلا رہی ہو.........رونا دھونا بند کرو اور میرے لیے کھانا گرم کرو........ 
     """""اٹھو""""" 
دفعہ ہو جاؤ...لہجے میں نفرت بھرتے ہوۓ کہا.....
اور لبابہ چپ چاپ کھانا لینے چلی گئ.....
تقریباً دس منٹ بعد لبابہ لے کر آئ.... اور اس کے سامنے کھانا لگانے لگی....
تھوڑی دیر بعد شاہ نے کھانا کھایا تو لبابہ برتن اٹھانے لگی.....
شاہ کو جب کوئ وجہ نہیں ملی تو تنگ کرنے کے لیے اس نے پانی گرایا..........اور اپنی غلطی اس پر ڈالتے ہوے غرایا......
اور بولا یہ کیا بدتمیزی ہے دیکھ کر نہیں برتن اٹھا سکتی تھی....اندھی ہو کیا گوار کہیں کی پتا نہیں کہاں سے آگئ.....
لبانہ نے اپنی صفائ پیش کرتے ہوئے کہا.....
"""""میں نے نہیں گرایا ہے پانی آپکی وجہ سے گرا ہے"""
شاہ کو اس کا جواب دینا ناگوار گزرا............اور غصے سے اس نے لبابہ کا بازو دبوچا اور ایک تھپڑ رسید کیا.........
 تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے  قینچی کی طرح زبان چلانے والی عورتیں زہر لگتی ہیں..........پھر بھی بکواس کرتی ہو تم میرے آگے.....اور پھر غصے سے ایک جھٹکے سے چھوڑا......
نتیجاً لبابہ دور جا کر گری....
تھپڑ اتنی زور سے مارا تھا کہ اس کے ہونٹ سے خون رسنے لگا......لبابہ آنسو پیتے ہوۓ وہاں سے چلی گئ....اور واش روم میں جا کر خود کو بند کر لیا...... 
اور خبیب شاہ وہیں صوفے پر ڈھے گیا....اس کے اندر کا نفس چینخ چینخ کہہ رہا تھا کہ تو نے غلط کر دیا ہے.......لیکن وہ اپنی غلطی پر کان دھرے بیٹھا رہا......اور آخر کار اس نے اپنے دماغ کی سنی اور شاہ خود کو ٹھیک سمجھنے لگا........
اور لبابہ واش روم کے دروازے کے ساتھ بیٹھ کر زور زور سے رونے لگی..... 
اتنی زلت اتنی بے عزتی دل چاہ رہا ہے زمین پھٹے اور اس میں سما جاؤں.....یا اللہ میری مدد کر دے میں تیری گنہگار بندی ہوں...تیری منتظر ہوں مجھے معاف کر دے میرے مالک....وہ روتے ہوۓ بولی..... اور پھر آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھی.... 
اور وضو کرنے لگی.... 
باہر آئ اور جاۓنماز تلاش کرنے لگی...شاہ آنکھیں بند کر کے ویسے ہی لیٹا ہوا تھا.....
لبابہ نماز عشاء ادا کرنے لگی....
شاہ نے نے آنکھیں کھولی اور اسے نماز پڑھتے ہوۓ دیکھنے لگا.
نماز پڑھتے ہوے اسکا ہلتا وجود اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ نماز پڑھتے ہوۓ رو رہی ہے.....
ایک لمحے کے لیے شاہ کو کچھ ہوا اور پھر وہ سر جھٹک کر بی چین ہوتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گیا.. گاڑی نکالی اور سڑک کے کنارے پر بےجا گاڑی دوڑاتا رہا.....قریباً 3 بجے رات کو وپس آیا... 
کمرے میں داخل ہوا اور سوئچ بوڑ سے لائٹ آن کی... ..
وہ اسے جاۓنماز پر سکڑی سمٹی ہوئ نظر آئ اور پھر شاہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس تک پہنچا......اور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا..... 
پھٹا ہوا ہونٹ سوجے ہوے گال اور گالوں پر مٹے ہوۓ آنسو اس  کی چھوٹی سی غلطی کی چینخ چینخ کر گواہی دے رہے تھے....
سوتے ہوۓ وہ بہت معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی...شاہ نے چھونے کے لیا ہاتھ بڑہایا ہی تھا کہ اچانک اس کی ہاتھ پر نگاہ پڑی.... تو اسے وہ تھپڑ یاد آیا جو اسنے لبابہ کو مارا تھا....
شاہ نے غصے میں اس کو جھنجھوڑا تو لبابہ نے آہستہ آہستہ آنکھ کھولی.........
شاہ کو قریب دیکھ کر اس کے سوے ہوۓ اعصاب ایک جھٹکے سے بیدار ہوۓ.....اور لبابہ ڈر سے ایک دم دور ہوئ...
شاہ کو اس کے انداز پر ہنسی آئ اور اسکی زات کا مزاق بناتا ہوا بولا...
چ-چ لبابہ عادل تم نے ابھی سے ہار مان لی.....
"""""Darling"""
ابھی تو اور ڈرنا ہے اور تکلیف سہنی ہے....
لبابہ نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا اور اٹک اٹک کر بولی......
خبیب شاہ میں تمہارے ہر ظلم کے لیے تیار ہوں...اگر تمہارا بدلہ ایسے پورا ہوتا ہے تو کر لو..... 
خبیب شاہ اس کے اعتماد اور ہمت پر ایک بار پھر سے دنگ ہو گیا تھا....غصے سے اسکا ہاتھ مروڑتے ہوۓ بولا.....
""""تمہاری یہ ساری بہادری ختم نہ کی تو میرا نام بھی خبیب احمد شاہ نہیں"""" اور جس اعتماد سے تم میرے سامنے بول رہی ہو وہ بھی ختم ہوگا....
تب میرے سامنے تو کیا کسی کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوگی 
لبابہ صرف خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی......
خبیب شاہ نے انٹرکام کا بٹن دبایا اور ملازمہ کو بلایا....
عمر رسیدہ خاتون حکم کی تکمیل کرتے ہوئے آئ اور مودبانہ انداز میں بولی.... 
"""""جی سر آپ نے بلایا""""
ہاں فردوس ایسا کرو کہ سارے نوکروں کی چھٹی کر دو کچھ مہینوں کے لیے اور تم بھی اپنی بہو اور بیٹے کے ساتھ شاہ حویلی شفٹ ہو جاؤ.....
فردوس آپا نے سوالیہ نظریں لبابہ پر ڈالی تو خبیب شاہ مطلب سمجھتے ہوۓ بولا....
یہ بد قسمتی سے یہ میری بیوی کہلاتی ہے....اور آج سے سارا کام یہ ہی کرے گی.....
""No More Question""
اور ہاں اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو حویلی میں سمجھ گئ...
جی سر ملازمہ سر ہلاتی ہوئ وہاں سے نکلتی چلی گئ....
 اور وہ لبابہ کی طرف متوجہ ہوا جاؤ میرے لیے چاے بنا کر لاو...میں فریش ہو کر آتا ہوں...
15 منٹ تک وہ واپس آیا تو لبابہ کو ٹس سے مس ہوتے ہوۓ نہ دیکھ اس کے غصے کا گراف بڑھا اور ایک ہی جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا....
لبابہ کے منہ سے خوف سے چینخ نکلی...
شاہ نے اس کے بازو پر گرفت تیز کی اور غصے سے دھاڑتے ہوۓ بولا..... 
کیا بکواس کی تھی تھوڑی دیر پہلے کے جاؤ چاے بنا کر لاو....
"""کیوں نہیں گئ ہاں"""
میں تمہارے زرخرید غلام نہیں ہوں جو تمہارے ہر حکم کی تکمیل کروں....سمجھے لبابہ نے غصے سے جواب دیا...
اور خبیب شاہ کو اسکا یہ ہی اعتماد غصہ دلاتا تھا.....
غصے کی آہانت سے اس کا چہرہ لال ہوا اور  پھر اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کیا.... وہ اس کو گھسٹتے ہوۓ کیچن تک لایا اور ِادھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا.... مطلوبہ چیز ملتے ہی چولہا جلایا اور اس کی طرف پلٹا...
لبابہ تو اس کی ہر ایک حرکت پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتی رہی.....
شاہ نے اس کی کلائ پکڑی اور چولہے کے اوپر رکھ دی.....
تکلیف سے لبابہ کی فلک شگاف چینخیں برآمد ہوئ اور وہ درد رونے لگی اور التجا کرنے لگی...
""آآآں چھوڑو مجھے میرا ہاتھ"""
میں تمہارے پاؤں پکڑتی ہوں... مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے چھوڑ دو تمہیں اللہ کا واسطہ ہے... 
لیکن وہ شخص اس پر زرہ برابر  بھی رحم نہیں کرنے والا تھا...
1 منٹ بعد اسکا ہاتھ ہٹایا اور بےحسی کی انتہا پر پہنچتے ہوے بولا..... 
پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے قینچی کی طرح زبان چلانے والی عورتیں زہر لگتی ہیں..پر بدقسمتی سے تم میری بیوی  بن گئ ہو... ورنہ تم میری بیوی تو کیا ملازمہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتی....
آئیندہ میری کسی بات سے انکار کیا تو اس سزہ کو یاد رکھنا...
اپنے الفاظ اور عمل سے چھلنی کرتا ہوا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا....
اس کے جاتے ہی لبابہ نے پانی کا نل کھولا اور جلن مٹانے لگی...
"نہیں لبابہ تجھے اب بےحس بننا ہے برداشت نہیں کرے گی تو درد کی عادت کیسے ہو گی"
خود سے ہمکلامی کرتے ہوئے بےدردی سے آنسو صاف کیے اور کمرے کی طرف چل دی...
کمرے میں داخل ہوئ تو شاہ نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا...
بڑی بڑی جھیل سی آنکھیں رونے  کے باعث  لال اور سوجھی ہوئ تھی گال پر اس کی انگلیوں کے نشان تھے الجھے ہوے بال اور ناک میں چھوٹی سی نوزپین تھی....بلاشبہ وہ حسن کی دیوی تھی....
لبابہ آنکھیں جھکای وہیں کھڑی رہی... 
"""کیا ہے اب کیوں میرے سر پر سوار کھڑی ہو""" جاؤ سو جاؤ"" کل سے کام بھی بہت کرنا ہے پھر سونے کا ٹائّم بھی نہیں ملے گا اس کی طرف تکیہ پھینکتے ہوۓ ناگواری سے بولا!!!
لبابہ نے تکیہ پکڑا اور صوفے پر لیٹنے لگی کہ ایک بار پھر سے ستمگری کی آواز کانوں سے ٹکرائ....... 
میں نے کہا ہے کیا صوفے پر سو جاؤ ..جاؤ باہر بالکونی میں جا کر سو....تمہاری اوقات اس صوفے جتنی بھی نہیں ہے....
لبابہ نے جو اب تک سر جھکایا ہوا تھا ایک جھٹکے سے اٹھایا..... بےبسی کی انتہا تھی..اتنی ٹھنڈ میں  وہ زمین پر جا کر سو گئ..
شاہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آئ...
لبابہ نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا....
خبیب شاہ تم نے جو مجھ سے نکاح کیا وہ میری غلطی کی تلافی ہے لیکن یاد رکھنا تم جو مجھ پر ظلم کروگے وہ میں سہوں گئ..... 
لیکن یہ مت سوچنا کے میرے سر پر کسی کا ہاتھ نہیں ہے....
بھلے میرے ساتھ کوئ نہ ہو پر میرے ساتھ وہ رب کریم ہے جو میرے بہت قریب ہے...... 
میں اس کے کن کی طلب میں زندہ ہوں...جس دن اس نے کن کہہ دیا اس دن اس دن تمہارا ظلم وستم بھی ختم ہو جاۓ گا....
اور خبیب شاہ اس کی یہ بات سن کر پل بھر کے لیے بےچین ہوا لیکن پھر بھی بےحسی سے لیٹا رہا..
اور بےشک اللہ قرآن میں فرماتا ہے...
"""اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ اللہ تمہارے ساتھ ہے""

   1
0 Comments